Arshi khan

Add To collaction

عشق بلا خیز

عشق بلا خیز

از قلم ۔ شگفتہ ارم درانی۔ پشاور
قسط نمبر 2
آج یونیورسٹی میں ارشی کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ وہ تین چھٹیوں کے بعد آج آئی تھی۔ دوسری طرف نوید بھی خاموش اور بجھا بجھا سا تھا۔ وہ بہت کمزور ہو گیا تھا۔ اس کی رنگت زردی مائل ہو رہی تھی اور آنکھوں میں وحشت نے ڈیرے ڈال لئے تھے۔ تیسرا پیریڈ ختم ہوا تو سب باہر نکل آئے۔ ارشی نے ایک اچٹتی سی نظر نوید پر ڈالی جو دنیا وما فیہا سے بے خبر کاغذ پر بال پین سے عجیب آڑھی ترچھی لائنیں لگا رہا تھا۔ اور باہر نکل گئی۔ ابھی کچھ دیر ہی اس نے لان میں گزاری تھی کہ کلاس روم سے چیخ و پکار کی آوازیں سن کر چونکی۔ ارشی جو نوید کی کمی شدت سے محسوس کر رہی تھی فوراً اٹھی اور کلاس روم کے پاس جا پہنچی۔ وہاں اب تک سٹوڈنٹ کا جم غفیر جمع ہو چکا تھا۔ لیکن جو منظر سامنے تھا اسے دیکھ کر ہر کوئی حیرت ذدہ تھا۔ کلاس میں نوید کرسی پر بیٹھا خوف و شدت سے کانپ رہا تھا۔ اور بار بار کہہ رہا تھا '' خدا کے لئے اسے چھوڑ دو۔ خدا کے لئے'' جبکہ فرزین جو نوید کی کلاس فیلو تھی اسے کوئی نادیدہ ہستی زمین پر بار بار اٹھا رہی تھی اور گرا دیتی تھی۔ فرزین کے ہاتھوں ، پیشانی اور جسم کے کئی حصوں سے خون بہہ رہا تھا اور وہ بری طرح چیخ رہی تھی۔ فضا میں کسی نادیدہ ہستی کے بھیانک قہقہے گونج رہے تھے۔ نوید نے جب سٹوڈنٹ کو دروازے میں کھڑا دیکھا تو دوڑتا ہوا باہر آ گیا۔ سٹوڈنٹ جو پہلے ہی خوفزدہ تھے نوید کو آگے بڑھتا دیکھ کر منتشر ہو گئے۔ ارشی یہ منظر دیکھنے میں محو تھی نوید کے باہر آتے ہی اس کی ٹکر نوید سے ہوئی۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔ نوید ارشی کو حسرت و غم سے دیکھنے لگا جیسے اسے کہہ رہا ہو۔ بس دیکھ لیا خود تم نے اپنی آنکھوں سے۔
نوید نے مزید وہاں کھڑا رہنا مناسب نا سمجھا اور گھر چلا گیا۔ اس واقعے کی تحقیقات کی گئیں تو کوئی واضح وجہ سامنے نہ آئی۔ آفتاب جو ساتھ ہی کھڑکی کے پاس کھڑا تھا اس نے بتایا کلاس روم میں سوائے نوید کے کوئی نہیں تھا۔ فرزین ہاتھ میں چپس کے پیکٹ لئے نوید کو اکیلا پا کر اندر آ گئی۔ اور نوید کے پاس بیٹھ کر اس سے باتیں کرنے لگی۔ ہم سب یہ منظر بہت دلچسپی سے دیکھ رہے تھے کیونکہ فرزین ہے ہی ایسی آزاد خیال لڑکی کہ کوئی لڑکا اس سے بچ نہیں سکتا۔ دوسری طرف نوید اس سے بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ وہ اٹھا اور باہر جانے لگا کہ فرزین نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے کہنے لگی۔ '' نوید کیا بات ہے اب تو تمہاری منگنی بھی ٹوٹ گئی ہے۔ کبھی ہماری طرف بھی دیکھ لیا کرو۔'' اس کا کہنا تھا کہ کوئی نادیدہ ہستی اسے مارنے پیٹنے لگی۔ فرزین کا جسم کتنی ہی بار ہوا میں بلند ہوا اور نیچے گرا۔ لیکن میں یہ بات پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اسے مارنے والا نوید نہیں تھا۔ نوید تو خود گھبرا گیا تھا اور (اسے روکنے کی کوشش کر رہا تھا) آفتاب اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔ لیکن ارشی کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ اس واقعے کے بعد لوگ نوید سے خوف کھانے لگے۔ اس سے دور رہنے لگے جب کہ نوید بیچارہ بے بسی اور حسرت و یاس کی تصویر بن گیا۔ وہ خاموشی سے سر جھکائے آتا اور خاموشی سے چلا جاتا۔
دوسری طرف ارشی تھی جو روز پانچ وقت کی نماز میں نوید کے لئے دعائیں مانگتی تھی۔ اسے معاملہ کچھ حد تک سمجھ میں آ چکا تھا۔ وہ اب نوید کو پہلے سے بھی زیادہ چاہنے لگی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ منگنی کے بعد جتنے رشتے بھی آئے اس نے ٹھکرا دئیے۔ گھر والوں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
ایک دن وہ کچھ لکھ رہی تھی کہ اس کی امی آئیں اور شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔ '' بیٹا گاؤں سے کارڈ آیا ہے۔ سلطان کی شادی ہے ۔تم چلو گی ناں۔''
''اوہ اچھا جی ضرور چلوں گی کب ہے شادی۔'' ارشی نے پوچھا۔
'' کل بارات ہے اور پرسوں ولیمہ۔ تم پیکنگ کر لو، ہم آج شام نکلیں گے۔'' امی نے کہا۔
'' جی اچھا امی ٹھیک ہے۔ میں ذرا نادیہ کو فون کر کے درخواست کا کہہ دوں۔''
'' ہاں بالکل۔ '' اور امی چلی گئیں جبکہ ارشی نادیہ کو فون کرنے لگی۔
گاؤں بالکل پہلے کی طرح تھا۔ خوبصورت سر سبززوشاداب۔ ارشی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔اس کا دل سہانی یادوں کے تصور سے ابھر آیا۔ وہ پل، وہ لمحے جو اس نے نوید کے ساتھ اس گاؤں میں گزارے تھے۔ وہ دونوں سارا سارا دن گاؤں کی کچی گلیوں اور سڑکوں پر کھیلتے کودتے رہتے تھے۔ کتنی معصوم خواہشات اور کتنی معصوم محبت تھی ان کی۔ جسے نجانے کس کی نظر لگ گئی۔ کچھ ہی دیر بعد ارشی یادوں کے بھنور سے نکل آئی۔کیونکہ گاڑی رک چکی تھی اور سلطان کا گھر سامنے تھا۔ گھر کو بڑی سادگی اور خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ ارشی اپنے والدین کے ہمراہ اندر داخل ہوئی تو ہر طرف رونق آ گئی۔ سب گھر والوں نے ان کا پر تپاک استقبال کیا۔ ارشی مسکرا مسکرا کر ان کی محبت کا جواب دیتی رہی۔ گاؤں میں اب بھی یہ رواج ہے کہ جس کے گھر شادی ہو ، وہاں خاندان اور محلے کے افراد کئی دن پہلے سے بسیرا کر لیتے ہیں۔ خوب ہلہ گلہ کرتے ہیں۔ یہی حال سلطان کے گھرکا تھا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھی۔ انہی میں ارشی کے بچپن کی ایک سہیلی شاہدہ بھی تھی۔ جس نے جونہی ارشی کو دور سے دیکھا اور فوراً دوڑتی ہوئی آئی۔
'' اوہ ارشی۔ کیسی ہے تو۔''۔۔۔۔۔۔۔؟
'' تم سناؤ۔ کیا حال ہے۔'' ارشی نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
'' میں تو بالکل ٹھیک ہوں تم لوگ تو شہر جا کر بھول ہی گئے بھئی۔'' شاہدہ نے شکوہ کیا۔
'' ارے نہیں یار! تم لوگوں کو ہم کیسے بھلا سکتے ہیں۔ اچھا اور سنا گاؤں کے کچھ حالات وغیرہ۔ '' اور شاہدہ اسے مختصراً گاؤں کے بارے میں بتانے لگی۔
'' اچھا یہ تو بتاؤ وہ تمہارا عاشق کیسا ہے؟'' شاہدہ نے شرارتاً پوچھا۔
''کون ہے۔''
'' ارے بھئی وہی نوید تمہارا منگیتر اور کون؟''
'' اوہ اچھا ہاں وہ ٹھیک ہے۔ '' ارشی نے جھجھکتے ہوئے جواب دیا۔
'' کیا مطلب ٹھیک ہے؟'' شاہدہ نے پھر پوچھا۔
'' بس ٹھیک ہے ناں۔ اچھا کوئی اور بات بات کرو۔'' ارشی نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
'' ارے یہ کیا بات ہوئی۔ پہلے تو اس کا نام آتے ہی تو کھل اٹھتی تھی اور اس کی باتیں کرتے نہیں تھکتی تھی اور اب۔۔۔۔۔۔! آخر بات کیا ہے؟'' شاہدہ نے اسے کریدا۔
'' کوئی بات نہیں۔ شاہدہ پلیز تم کوئی اور بات کرو نا۔۔۔۔۔!''
'' اچھا بھئی جیسے تمہاری مرضی۔ ویسے نوید ہے بڑا عجیب انسان۔''
'' کیا مطلب؟'' ارشی نے پوچھا۔
دیکھو ناں اس دن فیروز سے ملنے اس کے گھر آیا۔ سارا دن گاؤں کی سیر کی اور رات کو کسی کو بن بتائے '' پرانے کنویں'' پر جا پہنچا۔ اور صبح فیروز سے ملے بغیر واپس چلا گیا۔''
'' پرانا کنواں۔ یہ تم کیا کہہ رہی ہو شاہدہ۔ کسی نے اسے روکا نہیں ؟'' ارشی نے حیرت سے پوچھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف امڈ آیا۔
'' ارے بھئی تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو۔ نوید اسی گاؤں کا باسی ہے ۔ وہ سب جانتا ہے کہ کنویں پر آسیب ہیں اور بھلا رات کے دو بجے کون جانتا تھا کہ وہ کنویں پر جا پہنچے گا۔''

   1
0 Comments